You can edit almost every page by Creating an account. Otherwise, see the FAQ.

Rasheed Hasrat Rasheed Hasrat

From EverybodyWiki Bios & Wiki

Rasheed Hasrat Rasheed Hasrat
Abdul rasheed.jpg
Native nameRasheed Hasrat
Born1962/06/16
Mithri (Kachhi) Balochistan
🏡 ResidenceQuetta
🏳️ NationalityPakistan
🏫 EducationM A (Urdu)
🎓 Alma materUniversity of Balochistan, Quetta
💼 Occupation
Professor, Poet

[1]Introduction of Rasheed Hasrat. Rasheed born at Village Mithri (District Kachhi) Balochistan on 16 June 1962. His Father Maolvi Mohammad Ramzan was a class 4 official in Pakistan Railways due to which, Rasheed had to earn living early after to pass the Metric Exam. So he joined as Junior Clerk. He cleared Masters Degree in Urdu literature and commissioned after a spell of time. During intervening period he was performing as Stenographer in Balochistan Civil Seretariat Quetta but due to involvement with urdu literature he gave priority to perform as a lecturer. Now a days he is performing as Associate Professor and Chair as Head of Urdu Department in a local Government College.

File:Rasheed Hasrat.jpg

Residents Quetta Job Education Department as Associate Professor Passion Poetry Books Published " Sookhe Paton Pe Qadam " " Apsra Ada Ki Baat " " Khazan Aalood Bahaar "

Primary Life[edit]

Rasheed Hasrat is a recognised National level poet in urdu. He born on 16 June 1962 in a backward area of Balochistan, Mithri District Kachhi

References[edit]

[1]

Books Published[edit]

سُوکھے پتّوں پہ قدم۔ 


اپسرا ادا کی بات۔


خزاں آلُود بہار۔


آنکھوں میں سوغات۔


گُونجتے سنّاٹے۔


Specimen of Poetry[edit]

تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا

رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا


خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟

تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا


بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے

بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا


مُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟

رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ غِلاف رہا


کبھی تھا بِیچ میں پریوں کے، اب جِنوں کے بِیچ

یہ شہر میرے لیئے گویا کوہ قاف رہا


وُہ شخص جِس کو سُکوں میرے بِن نہ آتا کہِیں

نہِیں تھا میرا، نیا ایک اِنکشاف رہا


خُدا کرے کہ وفا کا بھرم رہے قائم

مُعاملہ تھا بڑا صاف اور صاف رہا


میں اپنے فن کا پُجاری ہوں دُوسروں کا نہِیں

بڑا ہے وہ کہ جِسے سب کا اعتراف رہا


رشِیدؔ کوسا کِیا میں یہاں مُقدّر کو

وہاں چُھپا ہؤا سِینے میں اِک شِگاف رہا


غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے

آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے


ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر

جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے


اُس کے حِصّے کی زمیننیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں

مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے


اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی

اور احکام کی تعمِیل ہُوئی جاتی ہے


میں نے کھائی تھی قسم اُس کا بھرم رکھ لُوں گا

پر بیاں ساری ہی تفصِیل ہُوئی جاتی ہے


اور کُچھ روز مِرا ظرف کشا کش میں رہے

اِس بہانے مِری تکمِیل ہُوئی جاتی ہے


سارا دِن دُھوپ میں جلتا ہُوں فقط روٹی کو

زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہُوئی جاتی ہے


ابرہہؔ بن کے نہ کر میرے حرمؔ پر حملہ

بے بسی اب تو ابابِیلؔ ہُوئی جاتی ہے


کِس تکلُّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا

یاد کی رو ہے کہ تمثِیل ہُوئی جاتی ہے


اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسّر ہے کہاں

زِندگی بُھوک میں تحلِیل ہُوئی جاتی ہے


میں سمجھتا تھا اُسے بُھول گیا ہوں حسرتؔ

پر چُبھن دِل میں مِرے کِیل ہُوئی جاتی ہے


اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا

پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا


میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی

اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا


کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے

سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا


میں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے خیال

ہتھکڑی اِک سنتری پہنائے گا، لے جائے گا


میری چِیزوں میں سے اُس کو جو پسند آیا کبھی

چِھین لے گا چِیز پِھر مُسکائے گا، لے جائے گا


شاعری رکھ دی ہے میں نے کم نظر لوگوں کے بِیچ

دوستو وہ مِہرباں بھی آئے گا، لے جائے گا


اپنی بِیوی کے بِنا کِس کا گُزارا ہے یہاں

دیکھنا، داماد جی پچھتائے گا، لے جائے گا


سر میں چاندی تار لے کر ایک لڑکی نے کہا

کیا کوئی اب بھی مُجھے اپنائے گا، لے جائے گا؟؟


دیکھنا کُوڑے میں سڑتا باسی کھانا بھی رشِیدؔ

ننھا سا مجبُور بچّہ کھائے گا، لے جائے گا



کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو

دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو


باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر

اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو


مزدُوری بھی لاؤں تو اِسی کو ہی تھماؤں

بِیوی میں بھلا لڑنے کی ہِمّت ہے، نہِیں تو


دولت کے پُجاری ہیں فقط آج مسِیحا

دُکھ بانٹنا ہے، یہ کوئی خِدمت ہے؟؟ نہِیں تو


دعوا تو سبھی کرتے ہیں پر ایسا نہِیں ہے

تفرِیق نہیں ہم میں حقِیقت ہے، نہِیں تو


خُود ہاتھ سے میں آپ کرُوں اپنی تباہی

اور سب سے کہُوں یہ مِری قِسمت ہے، نہِیں تو


جو پہلی محبُت تھی مزہ اُس کا الگ تھا

کیا اب بھی وُہی پہلی سی لذت ہے، نہِیں تو


ہم جِس کے سہارے پہ رہے، اُس کا بِچھڑنا

جاں لینے سے کیا کم یہ مُصیبت ہے، نہِیں تو


اے وقت تِرا زخم بھرا ہے نہ بھرے گا

محفُوظ تِرے وار سے حسرتؔ ہے، نہِیں تو


کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں

پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں


پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی

جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں


ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں

تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں


ذائقوں سے اِن کے ہم کو کُچھ نہیں ہے اِنحراف

سب سے مِیٹھا پھل ہے لیکن صبر سب اثمار میں


چُرمراتے سُوکھے پتوں پر قدم رکھتے ہوئے

کھو کے رہ جاتے ہیں ماضی کی حسِیں مہکار میں



ہم گلی کُوچوں میں تو دعوا کریں تہذِیب کا

اور اپنے گھر رکھیں ماں باپ کو آزار میں


کیا ہی اچھّا تھا کہ ہم کرتے کِسی نُکتے پہ بات

ہم دُکاں داری لگاتے ہیں فقط تکرار میں


کل تُمہارے پاؤں چاٹیں گے ہمارا کام ہے

آج حاضِر ہو نہِیں پائے اگر دربار میں


زیدؔ نے لوگوں میں بانٹا، آج آٹا، دال، گِھی

اِس توقع پر کہ ہو گی کل خبر اخبار میں


ہم تُمہاری بے زُبانی سے تھے تھوڑا آشنا

کِھلکھلاتی "ہاں" چُھپی تھی "پُھسپُھسے اِنکار میں


جو سُنے وہ گُفتگُو کا بن کے رہ جائے اسِیر

کیسا جادُو رکھ دیا اِک شخص نے گُفتار میں


تھا زمانہ وہ تُمہارے ناز کا، انداز کا

شرم کے مارے گڑھے پڑتے تُمہیں رُخسار میں


کام کیا ایسا پڑا ہے، ڈُھونڈتے ہو کِس لِیئے

ہم سے مِلنا ہے تو پِھر ڈُھونڈو ہمیں اشعار میں


اِک وفا کو چھوڑ کر تصوِیر میں سب کُچھ مِلا

اے مُصوّر رہ گئی بس اِک کمی شہکار میں


جو ہُنر رکھتا ہے وہ روٹی کما لے گا ضرُور

دوستو طاقت بڑی رکھی گئی اوزار میں


شاعری تو خاک کر لیں گے مگر اِتنا ضرُور

فیضؔ کا سندیس گویا روزنِ دِیوار میں


جِس کی مرضی، جب، جہاں، جیسی بھی من مانی کرے

اِک ذرا سا دم کہاں باقی رہا سرکار میں


کیا حقِیقت پُوچھتے ہو، زِندگی اِک جبر ہے

درد بن کر خُون بہتا ہے تِرے فنکار میں


ہم اگر تذلِیل کی زد میں ہیں تو باعِث ہے یہ

حل کبھی ڈُھونڈا نہیں اقبالؔ کے افکار میں


آج اپنے فن کی لوگو قدر دانی کُچھ نہیں

کل ہمیں ڈُھونڈا کرو گے تُم قدِیم آثار میں


مصلِحت کا یہ تقاضہ تھا کہ ہم نے مان لی

جِیت پوشِیدہ کِسی کی تھی ہماری ہار میں


آخری شمعیں بھی اب تو پھڑپھڑا کے رہ گئِیں

مُنتظِر بیٹھے ہوئے ہیں ہم یہاں بےکار میں


وہ، تعلُّق جِس کی خاطِر سب سے توڑا تھا رشِیدؔ

لو چلا ہے وہ بھی ہم کو چھوڑ کر اغیار میں



ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا

کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا


مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں

جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا


رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے

مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا


پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر

کمال سانپ تھا جو آستین چھوڑ گیا


پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو

مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا


میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں

گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا


ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے

اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا


وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا

ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا


صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا

جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا


خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ

جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا


کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ

مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا



This article "Rasheed Hasrat" is from Simple English Wikipedia. The list of its authors can be seen in its historical and/or the page Edithistory:Rasheed Hasrat.